جمعرات 21 جون 2018 - 15:23
دنیا میں انسانی حقوق کی پامالی سب سے زیادہ فلسطین میں ہورہی ہیں

حوزه/حجت الاسلام والمسلمین سید ساجد علی نقوی نے کہا کہ مغربی سامراج خصوصاً امریکہ فلسطینیوں کے حقوق کو دبانے اور ناجائز ریاست اسرائیل کے تحفظ کیلئے کھل کر سامنے آگیا، واضح ہوگیا کہ اسرائیل امریکہ کی ہی کالونی ہے، اب اسلامی ممالک کو بھی القدس اور مظلوم فلسطینیوں کے تحفظ کیلئے واضح پالیسی اپنانا ہوگی، دنیا میں قتل وغارت گری، تشدد، انتہاء پسندی، سفاکیت اور عدم برداشت بھی مغربی طاقتوں کی پیدا کردہ ہیں۔

حوزہ خبر رساں ادارہ کی رپورٹ کے مطابق اسلامی تحریک کے سربراہ اور مرکزی نائب صدر متحد مجلس عمل حجت الاسلام والمسلمین سید ساجد علی نقوی نے کہا کہ مغربی سامراج خصوصاً امریکہ فلسطینیوں کے حقوق کو دبانے اور ناجائز ریاست اسرائیل کے تحفظ کیلئے کھل کر سامنے آگیا، واضح ہوگیا کہ اسرائیل امریکہ کی ہی کالونی ہے، اب اسلامی ممالک کو بھی القدس اور مظلوم فلسطینیوں کے تحفظ کیلئے واضح پالیسی اپنانا ہوگی، دنیا میں قتل وغارت گری، تشدد، انتہاء پسندی، سفاکیت اور عدم برداشت بھی مغربی طاقتوں کی پیدا کردہ ہیں۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے امریکہ کی اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل کواسرائیل دشمن قرار دے کراس کی رکنیت سے دستبرداری کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ مغربی سامراج خاص طور پر امریکہ کا چہرہ اب دنیا پر واضح اور بے نقاب ہوچکاہے اب کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی باقی نہ رہی کہ ناجائز اسرائیلی ریاست اصل میں امریکہ کی ہی کالونی ہے جس کے تحفظ کیلئے وہ ہر رکاوٹ کو دور کرنا چاہتاہے اور اس کے راستے میں حائل تمام مزاحمتوں کو اپنی ظلم و استبداد کے بل بوتے پر ختم کرنا چاہتاہے ، مغربی سامراج ناجائز ریاست کے تسلط اور مظلوم فلسطینیوں پر ڈھائے جانیوالی سفاکیت اور قتل عام پر یک آواز ہوچکے ہیں ، انسانی حقوق کی جتنی پامالی سرزمین فلسطین پر ہورہی ہیں شائد ہی دنیا کا کوئی اور خطہ ہو جہاں انسانیت ایسے قبیح جرائم اور گھناؤنے مظالم پر اس طرح شرمندہ ہورہی ہو۔ سربراہ اسلامی تحریک پاکستان نے اسلامی دنیا پر زور دیتے ہوئے کہاکہ جس طرح مظلوم فلسطینیوں کے حوالے سے مغربی سامراجی قوتیں یک آواز ہوچکی ہیں اب مسلم دنیا کو بھی خواب غفلت سے جاگتے ہوئے اس سفاکیت اور ظلم کو روکنے کیلئے اور فلسطینی عوام کو ان کے حق کیلئے اور قبلہ اول کی آزادی کیلئے یک آواز ہونا ہوگا اور اپنی پالیسیاں واضح اور دوٹوک بنانا ہوں گی۔

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .